سرکاری ملازمت

سرکاری ملازمت


سرکاری یا حکومتی ملازمت چار قسم کی ہوتی ہے۔

1- مستقل بنیاد پر

2۔ میثاق، معاہدہ یا کنٹریکٹ بنیاد پر

3- روزانہ کی بنیاد پر

4۔ کام یا پراجیکٹ کی قیمت (ورک چارج) کی بنیاد پر

1۔ مستقل ملازمت

یہ پکی ملازمت ہوتی ہے۔ اس کا ملازم بھرتی ہونے کے بعد جب تک 60 سال کی عمر تک نہیں پہنچ جاتا ہر حال میں ملازمت پر رہتا ہے۔ 60 سال کا ہو جانے پر اسے ملازمت سے ریٹائر کر دیا جاتا ہے اور وہ پینشن کا حقدار ہو جاتا ہے۔ 60 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اگر وہ کسی موذی مرض میں مبتلا ہو جائے تو اسے میڈیکل انفٹ قرار دے دیا جاتا ہے اور اسی دن سے ہی اسے ریٹائر کر دیا جاتا ہے۔

2۔ میثاق، معاہدہ یا کنٹریکٹ بنیاد پر

اس قسم کی ملازمت میں ملازمت کی مدت بھرتی کے وقت طے کرلی جاتی ہے۔ کام کی نوعیت کے لحاظ سے اس کی مدت مختلف ہوسکتی ھے۔ زیادہ تر اس کی مدت ایک سال سے تین سال تک ہوتی ھے۔ کچھ لیکن بہت ہی کم محکموں میں مدت پانچ سال بھی ہوتی ہے لیکن ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔

اکثر کنٹریکٹ بڑھا دیے جاتے ہیں اور بعد میں ان کو مستقل کر دیا جاتا ہے۔ اس میں ریٹائرمنٹ کی عمر مختلف ہوتی ہے۔

3- روزانہ کی بنیاد پر

اسے ڈیلی ویجز کہتے ہیں۔ اس قسم کی ملازمت میں سرکاری چھٹی یعنی اتوار کے پیسے ملازم کو نہیں دیے جاتے۔ اگر اتوار کے علاوہ بھی ملازم کسی دن چھٹی کرے تو اس دن کی اجرت اسے نہیں دی جاتی۔ اتوار کے علاوہ دیگر تہوار مثلاً عید، یوم عاشور و دیگر سرکاری تعطیلات کے دن کی اجرت بھی نہیں دی جاتی۔

اکثر محکموں میں روازانہ کی بنیاد پر کام کرنے والا اگر ایک ہی نشست پر دو سال تک لگاتار کام کر لے تو اسے مستقل کر دیا جاتا ہے۔ یا پھر وہ عدالت کا سہارہ لے کر مستقل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

4۔ کام یا پراجیکٹ کی قیمت (ورک چارج) کی بنیاد پر

اس قسم کی ملازمت میں کسی ملازم کو کسی ہونے والے کام (پراجیکٹ) یا کسی چلتے ہوئے کام کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ ملازم کی تنخواہ اس کام کے تخمینہ لاگت میں پہلے شامل کر لی جاتی ہے اور اسے اسی مد میں تنخواہ دی جاتی ہے۔ جیسے ہی پراجیکٹ ختم ہو جاتا ہے ملازم اپنی ملازمت سے فارغ ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر اس قسم کی ملازمت میں بھرتی انانوے (89) دن کی جاتی ہے۔ اگر نوے  دن یا اس سے زیادہ کوئی ملازم اپنی نشست پر کام کر لے تو وہ مستقل ہونے کا حقدار ہوتا ہے۔ مستقل ہونے کے لیے اسے بھی عدالت کا سہا رہ لینا پڑتا ہے۔

No comments:

Post a Comment